بدیہیات قرآن حکمتیں اور فائدے

(سورہ بقرہ)

از: مولانا محمد عارف مبارکپوری

 

سورہ بقرہ میں بہت سے مقامات پر بدیہیات ہیں۔

(۱) فرمان باری تعالیٰ (ومِما رزقناہم ینفقون) (آیت:۳)

”اور ہم نے جو روزی دی ہے ان کو، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“

یہاں یہ بات بالکل عیاں اور بیاں ہے کہ انسان جو بھی خرچ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ میں سے ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہنے میں کہ ”ہم نے جو روزی دی ہے ان کو، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“ کیا حکمت پنہاں ہے؟

مفتی محمد شفیع صاحب اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ لفظ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ، شریف انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے، یہ سب خداہی کا عطا کیا ہوا ہے اوراسی کی امانت ہے۔ اگرہم اس تمام مال کو بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کردیں، تو حق اور بجا ہے، اس میں بھی ہمارا کوئی احسان نہیں۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی                  حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا(۱)

(۲) فرمان باری: (الذین یومنون بالغیب) کے بعد فرمایا (والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرة ہم یوقنون) (آیت: ۳،۴)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”غیب پر ایمان“ کے تحت، رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نازل ہوئی اس پر ایمان اور آخرت پر ایمان؛ سب آتا ہے پھر ان کو دوبارہ الگ سے بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ (بقول عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس) عہد رسالت میں مومنین متقین دو طرح کے حضرات تھے۔

ایک تو وہ جو پہلے مشرک تھے، پھر مشرف بہ اسلام ہوئے جیسے مشرکین مکہ اور دوسرے بت پرست جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ پہلی آیت میں انہی کا تذکرہ ہے؛ اسی لیے ان کے تذکرہ میں غیب پر ایمان کی بات بتائی گئی؛ کیوں کہ حالت شرک میں وہ غیب پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔

دوسرے وہ جو پہلے اہل کتاب (یہودی یا نصرانی) تھے پھر مشرف بہ اسلام ہوئے؛ اسی لیے ان کے تذکرے میں قرآن کریم پر ایمان لانے کے ساتھ، پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی تصریح کی گئی۔ اور یہ لوگ حسب تصریح حدیث پاک دوہرے ثواب کے مستحق ہیں: ایک تو پچھلی کتابوں کے زمانہ میں ان پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا، دوسرے قرآن کے زمانے میں قرآن پر ایمان لانے اوراس پر عمل کرنے کا۔(۲)

(۳) فرمان باری: (واذا قیل لہم لاتفسدوا فی الارض) (آیت:۱۱)

”اور فساد نہ ڈالو ملک میں“

ظاہر ہے کہ ان کا فسادزمین میں ہی تھا پھر یہ کہنے میں کیا حکمت ہے کہ ”زمین میں فساد نہ ڈالو“؟

بعض حضرات نے اس کو محض تاکید قرار دیا ہے؛ لیکن ابوحیان اس رائے سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”الارض“ کا اضافہ محض تاکید کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس میں اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ یہ جگہ جہاں تمہاری نشونما ہوتی ہے؛ جسے تم کام میں لاتے ہو یہی تمہاری زندگی کا سرچشمہ ہے اسی میں تمہارے مردے دفن ہوتے ہیں اس کی یہ شان نہیں کہ اس میں فساد برپا کرو۔ اس لیے کہ اصلاح کی جگہ کو فساد کی جگہ نہیں بنانا چاہیے۔

 فرمان باری ہے: (ولا تفسدوا فی الأرض بعد اصلاحہا) (سورہ اعراف:۵۶)

”مت خرابی ڈالو زمین میں، اس کی اصلاح کے بعد“

نیز فرمایا: (وہو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبہا وکلوا من رزقہ) (سورہ ملک:۱۵)

”وہی ہے جس نے کیا تمہارے آگے زمین کو پست، اب چلو پھرو اس کے کندھوں پر اور کھاؤ کچھ اس کی دی ہوئی روزی“۔

نیز فرمایا: (والأرض بعد ذلک دحاہاo أخرج منہا ماء ہا ومرعاہاo والجبال أرساہاo متاعالکم ولأنعامکم) (نازعات:۳۰-۳۳)

”اور زمین کو اس کے پیچھے صاف بچھادیا، باہر نکالا زمین سے اس کا پانی اور چارا اور پہاڑوں کو قائم کردیا کام چلانے کو تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے“

نیز فرمایا: (أنا صببنا الماء صبّا) (عبس:۲۵)

”کہ ہم نے ڈالا پانی اوپر سے گرتاہوا“

ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں یہ تنبیہ موجود ہے اور زمین اور اس کے لامحدود منافع کی شکل میں اللہ کے احسانات کاذکر ہے۔(۳)

(۴) فرمان باری: (أو کصیب من السماء) (آیت:۱۹)

”یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زور سے مینہ پڑرہا ہو آسمان سے“

آیت کے اس ٹکڑے میں لغوی بدیہیات ہے؛ اس لیے کہ لفظ ”صیب“ کا لغوی معنی: سحاب ذو الصوب۔ اور ”صوب“ کا معنی بارش ہونا (یعنی بارش والا بادل)(۴) ابوحیان کہتے ہیں کہ صوب کے معنی: بارش اور بادل کے بھی ہیں(۵) زمخشری نے کہا: ”صیب“ ایسی بارش جو ہورہی ہو۔ اور بادل کو بھی ”صیب“ کہا جاتا ہے۔(۶)

بہرکیف ”صیب“ کے معنی بارش ہو یا بادل اتنی بات تو بدیہی ہے کہ یہ آسمان سے ہی ہوگی پھر بھی ”آسمان سے“ ہونے کی تصریح کرنے میں کیا حکمت ہے؟ مفسرین نے اس کی مختلف وجوہات نقل کی ہیں اور سب برحق ہوسکتی ہیں۔

۱- زمخشری لکھتے ہیں:

اگر آپ کہیں کہ ”من السماء“ کہنے میں کیا فائدہ ہے جبکہ ”صیب“ (بادل یا بارش) آسمان ہی سے ہوتی ہے؟

زمخشری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ”سماء“ کے لفظ کو معرفہ لایا گیا (السماء) اس میں یہ بتانا ہے کہ یہ بارش آسمان کے صرف کسی ایک افق سے نہیں ہوگی؛ بلکہ تمام آفاق کا احاطہ کیے ہوئے ہوگی۔ آسمان کے ہر افق کو ”سماء“ کہا جاتاہے۔ جیسے آسمان کے ہر طبقہ کو ”سماء“ کہا جاتا ہے۔ فرمان باری ہے: وأوحیٰ فی کل سماء أمرہا (سورہ فصلت:۱۲)

مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا بادل ہے، جو آسمان کے تمام آفاق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہی رائے امام رازی اور شوکانی کی بھی ہے۔(۷)

علامہ آلوسی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”یہاں ”سماء“ سے مراد افق ہے اور لام تعریف استغراق کے لیے ہے، عہد ذہنی کے لیے نہیں جیسا بعض لوگوں کا ذہن اس کی طرف جاتا ہے۔ اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ بادل تمام آفاق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس سے مصیبت کی ہولناکی کااحساس ہوتا ہے۔ نیز اس میں ”تاریکی“ کے لیے تمہید قائم کرنا ہے۔ اسی مقصد سے اس کو یہاں ذکر کیا ہے۔“(۸)

آلوسی نے یہ فائدہ نقل تو کیا؛ لیکن خود اس کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے فائدے کو راجح قرار دیا ہے جیسا کہ آئے گا۔

ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس کو مستبعد قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ لام استغراق کے بارے میں یہی معروف و معلوم ہے کہ وہ ایسے اسم پر آتا ہے،جس کے افراد ہوں، نہ کہ ایسے اسم پر، جس کے اجزاء ہوں۔ اوراس صورت میں اجزاء کو افراد کے درجہ میں رکھنا ہوگا اور استعمال میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔(۹)

۲- یہ رائے آلوسی کی ہے۔ انھوں نے پہلی رائے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میرے نزدیک یہ ہولناکی بیان کرنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے لیے ایذاء رسانی والی چیز، ان کے سرکے اوپر سے آئی ہے۔ اوراس میں ایذاء کی عمومی شکل سے زیادہ بلاغت ہے۔ اس کا اشارہ اس فرمان باری میں ملتا ہے:

یصیب من فوق رء وسہم الحمیم (سورہ حج:۱۹) ”ڈالتے ہیں انکے سر پر جلتا پانی“

اور ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ انسان دوسرے اعضاء کے مقابلہ میں اپنے سر کی زیادہ حفاظت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ صاحب استطاعت اپنے سرپر (طیلسان) پگڑی رکھتا ہے۔ مشاہدہ اور وجود ہماری بات کے لیے قوی ترین گواہ ہے۔(۱۰)

۳- یہ رائے ابن عاشور کی ہے۔ انھوں نے پہلے قول کو ضعیف اور مستبعد قرار دینے کے بعد کہا کہ میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ (اگر ہم ”من السماء“ کو ”صیب“ کی قید قرار دیں) ”من السماء“ سے مراد، نہایت بلندی سے ہے۔ بارش اگر مقابل سمت سے اور اونچائی سے ہو تو دیر تک رہتی ہے لیکن اگر فضا کی سمتوں سے، زمین سے قریب ہو اور اونچی نہ ہو، تو یہ صورت نہیں ہوتی۔(۱۱)

۴- سابقہ اقوال کی بنیاد اس پر تھی کہ ”من السماء“ صیب کی قید ہے۔ لیکن ابن عاشور کے نزدیک یہ مرجوح ہے۔ ان کی رائے ہے کہ ”من السماء“، ”صیب“ کی قید نہیں؛ بلکہ یہ توضیحی صفت ہے۔ اس کا مقصد اس مثال میں بارش کی صورت کا مزید استحضار ہے؛ کیوں کہ یہ مقام، اطناب اور طوالت کا مقام ہے،اس کی مثال امرؤالقیس کا یہ شعر ہے

ع : کجلمود صخر حطہ السیل من عل

”جیسے گول چٹانی پتھر ہو، جس کو سیلاب نے اوپر سے نیچے گرادیا ہو۔“

یہاں سننے والا جانتا ہے کہ سیلاب چٹانی پتھر کو اوپر ہی سے نیچے گرائے گا؛ لیکن شاعر یہاں پر منظر کشی کرنا چاہتا تھا؛ اس لیے اسے یہ کہنا پڑا۔

اس کی مثال یہ فرمان باری بھی ہے: ولا طائر یطیر بجناحیہ (سورہ انعام:۳۸)

”اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازؤوں سے“

نیز فرمان باری: کالذی استہوتہ الشیاطین فی الأرض (سورہ انعام:۷۱)

”مثل اس شخص کے کہ رستہ بھلادیا ہو اس کو جنون نے“

نیز فرمان باری: فامطر علینا حجارة من السماء (سورہ انفال:۳۲)

”تو ہم پر برسادے پتھر آسمان سے“(۱۲)

۵- یہ قول امام رازی نے تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ (من السماء) کے ذریعہ ان لوگوں کی تردید مقصود ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ زمین سے ہوا میں نمناک بخار اٹھ کر جاتے ہیں اور ہوا کی ٹھنڈک کی وجہ سے جم جاتے ہیں پھر دوبارہ نیچے اترتے ہیں اور اسی کا نام بارش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کو غلط قرار دیا اور یہاں یہ بیان فرمادیا کہ یہ بارش آسمان سے ہوئی۔ اسی طرح فرمایا: وأنزلنا من السماء ماء طہورا (سورہ فرقان:۴۸)

”اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا“

نیز فرمایا: وینزل من السماء من جبال فیہا من برد (سورہ نور:۴۳)

”اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے“(۱۳)

لیکن امام رازی کی یہ رائے قوی نہیں؛ اس لیے کہ (من السماء) کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بارش، آسمان ہی میں بنتی بھی ہو؛ کیوں کہ اگر پانی بھاپ بن کر ہوا میں چلاجائے اور پھر نیچے آئے تو بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ آسمان سے ہے۔ لہٰذا اس میں اس رائے والوں کی تردید نہیں۔ واللہ اعلم۔(۱۴)

(۵) فرمان باری: (کلما أضاء لہم مشوا فیہ واذا أظلم علیہم قاموا) (آیت : ۲۰)

”جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں“۔

یہاں ”أقاموا“ کا مطلب ہے کہ اپنی جگہ پر ٹھہرجاتے ہیں اور جم جاتے ہیں۔(۱۵) ایک قول ہے کہ حیرت زدہ ہوکرٹھہرجاتے ہیں۔(۱۶)

یہاں پر (کلما أضاء لہم مشوا فیہ) کے جملہ سے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ جب اندھیرا ہوتا ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پھر دوبارہ (واذا أظلم علیہم قاموا) کے ذریعہ اس کی تصریح کی ضرورت نہیں تھی۔ اس میں کیا حکمت ہے؟

بقول ڈاکٹر فہد بن عبدالرحمان رومی کسی نے اس کا فائدہ ذکر نہیں کیا؛ بلکہ اس مفہوم کو ابوحیان کے علاوہ کسی نے چھیڑا بھی نہیں۔ ابوحیان نے بھی اس کو قصداً نہیں بلکہ ضمناً لکھا ہے، اس لیے کہ مفسرین پہلے جملہ کے شروع میں (کلما) اور دوسرے جملہ کے شروع میں (اذا) لانے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ چلنے کی تاک میں رہتے تھے اور اس کے دل دادہ تھے، چنانچہ جیسے ہی کوئی موقع ملتا چل پڑتے تھے؛ لیکن کھڑے رہنے کی یہ نوعیت نہیں تھی، اس لیے دونوں جملوں کے شروع میں الگ الگ الفاظ آئے ہیں۔(۱۷)

ابوحیان نے اسکی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت میں میرے نزدیک (کلما) اور (اذا) میں معنوی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے؛ اس لیے کہ جب (کلما اضاء لہم مشوا فیہ) سے تکرار سمجھ میں آیا تو لازمی طور پر اس میں بھی تکرار ہوگا کہ جب اندھیرا چھاجاتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں، اس لیے کہ معاملہ بجلی چمکنے اور اندھیرا ہونے میں دائر ہے؛ لہٰذا جب ایک پایا گیا تو دوسرا مفقود ہوگا اور ایک کے وجود میں تکرار سے دوسرے کے عدم میں تکرار لازم آئے گا۔ پھر یہ کہ بعض علماء نحو کی رائے ہے کہ (اذا)، (کلما) کی طرح تکرار بتاتا ہے۔(۱۸) تاہم ابوحیان نے جس معنی کا ذکر کیا ہے وہ ہمارا مقصود نہیں؛ کیوں کہ وہ روشنی اور تاریکی میں تکرار اور روشنی کے، تاریکی کے بعد آنے میں تلازم کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ جب روشنی ہوگی تو تاریکی چلی جائے گی اورجب روشنی جائے گی تو تاریکی پھیل جائے گی اور ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روشنی ہونے پر اس نے چلنے اور اندھیرا ہونے پر ان کے کھڑے رہ جانے کے درمیان تلازم ہے کہ جب چلنا پایا گیا تو کھڑا ہونا نہیں ہوگا اور جب کھڑا ہوناہوگا تو چلنا نہیں ہوگا۔ البتہ ابوحیان نے جو پہلے معنی کی طرف تنبیہ کی ہے، اس میں دوسرے معنی کی طرف اشارہ ہے۔

مفسرین میں سے کسی نے اس کا فائدہ ذکر نہیں کیا ہے البتہ بدیع الزماں نورسی نے سرسری طور پر ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

”(أظلم) میں (جو بجلی سے منسوب ہے) یہ اشارہ ہے کہ تاریکی، روشنی کے بعد زیادہ سخت ہوتی ہے، اور یہ ایماء ہے کہ ایسا مصیبت زدہ شخص جب دیکھتا ہے کہ بجلی نے، تاریکی کا صفایا کردیا پھر وہ چلی گئی تو تاریکی اس کی جگہ چھاگئی تو وہ یہ تصور کرتا ہے کہ بجلی کے جانے کے بعد اس کے پیچھے دھواں رہ گیا ہے۔ اور (علیہم) جو ضرر کی غمازی کرتا ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تاریکی کوئی اچانک نہیں آگئی؛ بلکہ ان کے اپنے اعمال کی نحوست ہے۔ اوراس میں یہ اشارہ ہے کہ مدہوش آدمی جب ساری فضاء میں تاریکی کا دور دورہ دیکھتا ہے، تو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عظیم کائنات میں تن تنہا وہی ضعیف و ناتواں مخلوق اس تاریکی کا واحد نشانہ ہے۔ اوراس کاسارا قہر اسی پر ٹوٹنے والاہے۔

یہاں پر (سکنوا) کے بجائے (قاموا) کا لفظ استعمال کرنے میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ مصیبت کی ہولناکی نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھااور وہ کمان بن گئے تھے جیسے کوئی حالت رکوع میں ہو۔ جیسے کوئی کسی کام میں انہماک سے لگا ہو“۔(۱۹)

اگر ان دو جملوں میں صرف یہی فائدہ ہوتا تو بھی کافی وشافی تھا۔ مزید براں اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دوسری حالت (واذا اظلم علیہم قاموا) کا تذکرہ مشبہ اور مشبہ بہ کے مابین مطابقت کے بیان کے لیے بھی ہے۔ اس لیے کہ منافقین کی دو حالت تھی: اظہار ایمان کی حالت اور کفر چھپانے کی حالت۔ اور وہ انہی دونوں حالتوں کے درمیان سرگرداں تھے۔ کبھی مسلمانوں سے ملتے تو کہتے کہ ہم ایمان لائے اورکبھی اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں جاتے تو کہتے کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، یہ تو ہم مذاق کرتے تھے۔ لہٰذا ضرورت تھی کہ ان دونوں حالتوں کے درمیان حیرانی کے تعلق سے، تشبیہ ان کی حقیقی صورت حال کے مطابق ہو، اس لیے ایمان کے اظہار کی حالت کے مقابلہ میں بجلی چمکنے کا اور کفر چھپانے کی حالت کے مقابلہ میں تاریکی اور اندھیرے کا تذکرہ کیا اور اگر صرف ایک حالت کے ذکر پر اکتفا کیاجاتا تو مشبہ کی حالت سے مطابقت نہیں ہوتی نیز پوری منظر کشی بھی نہیں ہوتی۔ اور قرآن کریم میں ایسا نقص کیوں کر آئے؟ واللہ اعلم(۲۰)

(۶) فرمان باری : الذی جعل لکم الارض فراشا والسماء بناءً وأنزل من السماء ماءً فأخرج بہ من الثمرات رزقا لکم(آیت:۲۲)

یہاں بدیہی طور پر یہ معلوم ہے کہ پانی آسمان سے ہی اتارا جاتا ہے۔ پھر (من السماء) کے اضافہ میں کیا حکمت ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ تعبیر کثرت سے آئی ہے۔ ابھی اوپر یہ آیت آچکی ہے (أو کصیب من السماء) اسکے علاوہ فرمان باری: فامطر علینا حجارة من السماء (انفال:۳۲)

”تو ہم پر برسادے پتھر آسمان سے“

نیز فرمان باری: وأنزلنا من السماء ماءً طہورا (فرقان:۴۸)

”اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا“

نیز فرمان باری: وینزل من السماء من جبال فیہا من برد (نور:۴۳)

”اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے“

نیز فرمان باری: وأنزلنا من السماء ماء (لقمان:۱۰)

”اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی“

نیز فرمان باری: وہو الذی أنزل من السماء ماء (انعام:۹۹)

”اور اسی نے اتارا آسمان سے پانی“

اس کے علاوہ بھی دوسری آیات ہیں۔

یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں (من السماء) کے تذکرہ میں حکمت وعلت ہر جگہ اس کی اپنی مناسبت سے ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک حکمت میں کئی ایک آیت شریک ہو؛ لیکن مفسرین کرام نے ہر آیت میں الگ الگ حکمت وعلت بیان نہیں کی بلکہ انھوں نے صرف (أو کصیب من السماء) اور (فأمطر علینا حجارة من السماء) میں علت بیان کی دوسری آیات میں اس کا فائدہ ذکر نہیں کیا۔

ظاہر ہے کہ جو علت (أو کصیب من السماء) میں بیان کی گئی ہے وہی علت (وأنزلنا من السماء ماء) میں بیان نہیں کی جاسکتی؛ اس لیے کہ پہلی آیت میں مقام، ڈرانے دھمکانے اور ایک خاص جماعت کی حالت کی منظر کشی کا ہے، جبکہ دوسری میں مقام، احسان جتلانے اور استدلال کا ہے۔ اورہر جگہ کے لیے اس کی مناسبت سے بات ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دونوں کا فائدہ ایک ہو اور علت دونوں میں ہر لحاظ سے مشترک ہو، ہاں کسی لحاظ سے اشتراک اس کے منافی نہیں ہے۔ اسکے لیے اس مضمون کو دوبارہ دیکھنا ہوگا جو (أو کصیب من السماء) کے تحت ہم نے بیان کیا ہے۔

اس آیت میں مناسب توجیہ ہماری نظر میں وہ ہے، جسے ابن عاشور نے ذکر کیا ہے اور اسی کو ترجیح دی۔ اور (أو کصیب من السماء) میں مفسرین کے اقوال میں یہ چوتھے نمبر پر آچکا ہے اور اسی کے مثل رازی کا قول ہے، جو ہماری رائے میں ضعیف اور غلط تھا۔

(من السماء) کے تذکرہ کی ایک وجہ بہ ظاہر ہماری سمجھ میں یہ بھی آتی ہے کہ یہ جگہ احسان جتلانے اور قدرت الٰہی کے اظہار کا ہے۔ لہٰذا بارش کے برسنے کے لیے کسی دور دراز جگہ کی تصریح زیادہ احسان اور اعلی قدرت کا اظہار ہے۔ مثلاً آپ اپنے کسی دوست سے ملنے جائیں اور وہ بے رخی دکھائے تو آپ اس سے کہیں کہ میں فلاں جگہ سے (اور کسی دور دراز مقام کا نام لیں) تم سے ملنے اور سلام کرنے آیا ہوں۔ اور تمہارا معاملہ میرے ساتھ یہ ہے۔ حالاں کہ اسے معلوم ہے کہ آپ بہت دور سے آئے ہیں پھر بھی یہ تعبیر عمدہ تصور کی جاتی ہے؛ اس لیے کہ یہ مقام، اظہار احسان کا ہے، جو آپ کے تئیں اس کے رویہ سے مترشح احسان فراموشی کے مقابلہ میں ہے۔ ایک شخص کوئی چیز آپ کے لیے کہیں دور سے لائے تو اس کا احسان اس شخص کے مقابلہ میں بڑا ہے، جو بعینہ وہی چیز کسی نزدیک جگہ سے لائے۔ لہٰذا (من السماء) کے تذکرہ مزید فضل وکرم کا اظہار ہے، اسی طرح اس میں قدرت الٰہی کا بیان بھی ہے۔ واللہ اعلم(۲۱)

(۷) فرمان باری: فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودہا الناس والحجارة أعدت للکافرین (آیت:۲۴)

”پھر اگر ایسا نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکوگے تو پھر بچو اس آگ سے جس کاایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ تیارکی ہوئی ہے کافروں کے واسطے“۔

یہاں پر (فان لم تفعلوا) کے بعد (فاتقوا النار) کہنے سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ یہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ پھر اس کے بعد (أعدت للکافرین) کہنے میں کیا حکمت ہے؟

اس تصریح میں ان پر کفر کا حکم لگانا ہے اور یہ بیان کرنا ہے کہ جولوگ حق کااتباع نہیں کرتے ان کا کیا حکم ہے۔ اس میں صرف یہ بیان کرنا مقصود نہیں کہ یہ آگ کس کے لیے تیار کی گئی ہے۔(۲۲)

بدیع الزمان نورسی کہتے ہیں:

”یہاں پر مقام (أعدت للکافرین) کے بجائے (أعدت لکم) کا تھا یعنی اسم ظاہر کے بجائے، ضمیر کے استعمال کا مقام تھا؛ لیکن قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ بالعموم آیات کے اخیر میں نتیجہ اور قاعدہ کلیہ بیان کردیتا ہے تاکہ اس عموم کے ذریعہ مذکورہ افراد پر لگنے والے حکم کی سب سے بڑی دلیل بیان ہوسکے؛ کیوں کہ یہاں پر اصلاً تو یوں کہنا تھا کہ تمہارے لیے تیار کی گئی ہے اگر تم کفر کروگے۔ اس لیے آگ کافروں کے لیے ہی تیار کی گئی ہے۔ اس لیے یہاں پر ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کا استعمال کیاگیا۔“(۲۳)

ابن عاشور اس موقع پر لکھتے ہیں:

”اگر (أعدت للکافرین) کو خبر قرار دیا جائے تو یہ زیادہ خوف انگیز، زیادہ پرشکوہ اور مخاطب کے دل میں زیادہ ہیبت کا باعث ہے۔ اس میں اشارتاً یہ بتانا ہے کہ یہ آگ انہی کے لیے ابتداءً تیارکی گئی ہے؛ اس لیے کہ گفتگو انہی کے ساتھ ہے۔“

لیکن ان کے نزدیک شاید کوئی اور معنی مقصود ہے۔(۲۴)

(۸) فرمان باری: الذین ینقضون عہد اللّٰہ من بعد میثاقہ (آیت:۲۷)

”جو توڑتے ہیں خدا کے معاہدے کو مضبوط کرنے کے بعد۔“

یہاں یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ معاہدہ توڑنا اسی وقت ہوگا جب اس سے پہلے معاہدہ ہو۔ ورنہ پھر اس کو معاہدہ توڑنا نہیں کہتے۔ لہٰذا اس کے بعد پھر (مِن بَعدِ مِیثَاقِہ) کہنے میں کیا حکمت ہے؟

بہ قول ڈاکٹر فہد رومی قدیم و جدید کتب تفسیر کی ورق گردانی کے باوجود ہماری نظر میں کسی نے اس کے فائدہ اور حکمت کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ البتہ ”میثاق“ کے تعلق سے ابوسعود لکھتے ہیں:

”میثاق یا تو نام ہے اس چیز کا جس کے ذریعہ سے توثیق اور پختگی آتی ہے یا یہ توثیق کے معنی میں مصدر ہے جیسے ”میعاد“ وعدہ کرنے کے معنی میں آتا ہے۔

پہلی صورت میں اگر ضمیر کا مرجع ”عہد“ ہے، تو میثاق سے مراد وہ قبولیت اور پابندی ہے، جس کے ذریعہ انہوں نے اس کی توثیق کی ہے۔ اوراگر مرجع لفظ جلالہ (اللہ) ہے تو اس سے مراد اللہ کی آیتیں، اس کی کتابیں اور اس کے رسولوں کے طرف سے انذار اور ڈرانا ہے۔ بہ ہر دو صورت مضاف محذوف ہے اور تقدیر عبارت یہ ہے ”من بعد تحقق میثاقہ“ (یعنی معاہدہ کے ثبوت اور وقوع کے بعد)

دوسری صورت میں اگر ضمیرکا مرجع عہد ہو اور میثاق مصدر ”مجہول“ ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ بعد اس کے کہ انھوں نے قبولیت اور پابندی کے ذریعہ اس کی توثیق کردی تھی یا بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں اتار کر اور رسولوں کی طرف سے انذار کی شکل میں اس کی توثیق کردی تھی۔ اور اگر ”میثاق“ کو مصدر ”مجہول“ مانا جائے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ بعداس کے کہ اس کی توثیق کردی جاچکی تھی یا تو ان کی طرف سے اس کی قبولیت کے ذریعہ یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابیں نازل کرکے اور رسولوں کے ذریعہ انذار کی شکل میں“(۲۵)

بہرکیف جیساکہ ہم نے عرض کیا مفسرین میں سے کسی نے ”نقض“ کے (من بعد میثاقہ) کے ذکر کی علت اور اس کافائدہ بیان نہیں کیا حالانکہ ”نقض“ میثاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔ بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ (اگر میثاق بعینہ عہد ہو تو) اس کی تصریح میں زجر و توبیخ زیادہ ہے جیسے آپ اپنے کسی ساتھی سے حیرت میں کہیں کہ کیا تم اپنے اس وعدہ سے پھر جاؤگے جو وعدہ تم نے کیا ہے؟ حالاں کہ اسے معلوم ہے کہ وعدہ اسی نے کیا ہے۔ البتہ اس میں زجر وتوبیخ اور اس کے خلاف مزید دلیل قائم کرنا ہے۔ واللہ اعلم(۲۶)

(۹) فرمان باری: کیف تکفرون باللّٰہ وکنتم أمواتا فأحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون (آیت:۲۸)

”کس طرح کافرہوتے ہو خدا تعالیٰ سے، حالاں کہ تم بے جان تھے پھر جلایا تم کو، پھر مارے گا تم کو، پھر جلائے گا تم کو، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔“

یہاں پر دوبارہ زندہ کیا جانا، اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا ہی ہے پھر اس کے بعد (ثم الیہ ترجعون) جو معلوم تھا، دوبارہ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

یہاں پر ایک قول یہ ضرور ہے کہ احیائے دوم سے مراد، قبر میں زندہ کرنا ہے؛ لیکن ابن کثیر نے اس قول کو ”غریب“ قرار دیا ہے اور کہا کہ صحیح وہ قول ہے جو ابن مسعود اور ابن عباس سے مروی ہے کہ احیاء سے مراد قیامت کے دن بعث و نشر کے لیے زندہ کرنا ہے۔ (۲۷)

بہ قول ڈاکٹر فہد رومی ہمارے علم کے مطابق کسی مفسر نے، بعث کے لیے زندہ کیے جانے کے بعد ”اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جانے“ (جو پہلے سے معلوم ہے) کے دوبارہ تذکرہ کی علت بیان نہیں کی۔ البتہ ابوحیان نے سرسری اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

”اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا، اس زندگی کے بعد ہے جو بعث کے لیے ہوگی، اس سے معلوم ہوا کہ وہ مذکورہ زندگی، سوال جواب کے لیے ہوگی۔“(۲۸)

ابوحیان کی رائے ہے کہ احیائے دوم، قبر میں سوال کے لیے زندہ کرنا ہے، بعث و نشر کے لیے زندہ کرنا نہیں۔ لیکن ہم کہہ چکے ہیں کہ اس قول کو ابن کثیر نے ”غریب“ قرار دیا ہے۔

ابوحیان کی تفسیر کو سامنے رکھا جائے تواس آیت کاتعلق بدیہیات سے نہیں رہے گا۔ یہ صرف اس صورت میں ہوگا جب ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا اس زندگی کے بعد ہوگا، جو بعث کے لیے ہے اور احیائے دوم کی تاویل بعث سے کریں۔

بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ”رجوع الی اللہ“ کے ذکر میں (حالاں کہ احیائے دوم سے وہ معلوم ہے) بہ قول ابوحیان وہ ترغیب و ترہیب ہے، جس کی وجہ سے غلط کار کو مزید خوف پیدا ہوگا اور اپنی بعض غلط حرکتوں سے باز آجائے گا اور نیک کار کے اندر نیکی کی مزید رغبت پیدا ہوگی اوراس کی توقعات اس کو مزید کار خیر کی طرف دعوت دیں گی۔ اور اس میں دہریہ، معطلہ اور منکرین بعث کی تردید ہے؛ کیوں کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں زندہ کرنا، موت دینا، دوبارہ اٹھانا اور ہر چیز کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“(۲۹)

آلوسی نے اجمالی طور پر (والیہ تُرْجعون) کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رجوع سے مراد محشر میں جمع کرنا ہے کہ اس دن حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہوگا۔ (والامر یومئذ للّٰہ)

آگے لکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے جو بات ہے، اہل معرفت سے مخفی نہیں۔(۳۰)

ابن عاشور نے ایک دوسرے معنی کو ظاہر قرار دیا ہے کہ یہاں پر متعلق کو اس کے عامل سے پہلے لایا گیا ہے، جس سے ”قصر“ معلوم ہوتا ہے۔ یہ قصر حقیقی ہے اس کے لانے کا مقصد، مخاطبین کو خبر دینا ہے؛ اس لیے کہ وہ اس کے منکر تھے۔ اور اس میں یہ اطلاع ہے کہ وہ اپنے معبودوں سے کسی طرح کے نفع کی امید نہ رکھیں؛ کیوں کہ مشرکین مسلمانوں سے بحث و مباحثہ میں کہاکرتے تھے کہ اگر بعث و حشر کا واقعہ پیش بھی آیا تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے معبود ان کی مدد کرتے ہیں۔(۳۱)

ان اجمالی اشارات سے ہمیں بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”رجوع الی اللہ“ (جو معلوم تھا) احیائے دوم کے بعد دوبارہ ذکر کرنے میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ اس میں غلط کار کو خوف دلانا ہے کہ لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس ہی جانا ہے، کسی اور کے پاس نہیں۔ یہ سن کر وہ اس کے متعلق سوبار سوچے گا اور غور کرے گا۔ اسی طرح اس میں نیک کار کے لیے ترغیب ہے کہ وہ نیکی کی راہ پر چلتا رہے۔ اس سے جو وعدہ کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے پر اس کو مل کر رہے گا۔ یہ سن کر اس کے اندر ثابت قدمی آئے گی اور مزید نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ واللہ اعلم(۳۲)

(۱۰) فرمان باری: (وَاِذ قَالَ رَبکَ للملائکةِ اِنِّی جَاعِل فِی الأرض خلیفة قالوا أتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک ونقدس لک قال انی أعلم مالا تعلمون) (آیت:۳۰)

”اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب۔ کہافرشتوں نے : کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے، اس میں خون بہائے اورہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو۔ فرمایا: بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“

اس آیت میں بدیہیات کے دو مقام ہیں:

(۱۰/۱) فرمان باری: (ونقدس لک) یہ (ونحن نسبح بحمدک) سے واضح اور معلوم ہوچکا تھا اس لیے کہ فرشتوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تقدیس ایک ہے۔ پھر دوبارہ (نقدس لک) کہنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے مختلف جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: (ونقدس لک) والا جملہ، تاکید کی طرح ہے، اس لیے کہ تقدیس کے معنی طاہر اور پاک قرار دینا ہے اور تنزیہ کے معنی، برائی سے منزہ اور بری قرار دینا ہے؛ یہ دونوں الفاظ معنوی اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ یہ ابوحیان کی رائے ہے۔(۳۳)

دوم: بعض مفسرین نے تکرار کے ازالہ کیلئے تسبیح اور تقدیس کے الگ الگ معانی بیان کیے ہیں۔

آلوسی لکھتے ہیں:

”مشہور یہ ہے کہ تسبیح اور تقدیس معنوی لحاظ سے ایک ہیں پھر تکرار کے ازالہ کے لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک کو طاعات کے اعتبار سے مانا جائے اور دوسرے کو اعتقادات کے لحاظ سے۔

ایک قول یہ ہے کہ تسبیح کا معنی: اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزوں سے منزہ قرار دینا، جو اس کی شایان شان نہیں اور تقدیس: اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز سے منزہ قرار دینا، جس کو وہ اپنی شایان شان نہیں سمجھتا۔ اس میں زیادہ بلاغت ہے۔ اس کی دلیل یہ کہ ان دونوں کو ایک دوسری جگہ ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ (سبوح قدوس)

ایک احتمال یہ ہے کہ یہ پاک کرنے کے معنی میں ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گندگیوں سے یا اپنے افعال کو نافرمانیوں سے پاک کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کی طرح زمین میں فتنہ وفساد اور خوں ریزی نہیں کریں گے یا یہ کہ ہم اپنے دلوں کو تیرے سوا کسی اورکی طرف توجہ سے پاک کرتے ہیں۔“(۳۴)

یہی بات ابن عاشور بھی کہتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

”(نسبح بحمدک ونقدس لک) کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیری عظمت بیان کرتے ہیں اور تجھ کو منزہ قرار دیتے ہیں: اوّل قول و عمل سے اور دوم: ذات عالیہ کے لیے، مناسب صفات کا عقیدہ کے ذریعہ۔ اب نسبح اور نقدس میں تکرار کا وہم نہیں ہونا چاہیے۔“(۳۵)

(۱۱/۲)فرمان باری (انی أعلم مالا تعلمون)

”مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے“

یہ بات بالکل بدیہی اور ناقابل انکار تھی، چہ جائیکہ فرشتے اس کا انکار کریں پھر اللہ تعالیٰ ان کو ایسی بات کیوں کربتا رہے ہیں، جس کو وہ جانتے ہیں اور اس سے انکاری نہیں؟

بدیع الزماں نورسی نے اس کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں، وہ رقم طراز ہیں:

انی اعلم یہ جملہ تحقیق اور تردد و شبہ کی تردید کے لیے ہے اور یہ ایسے نظریاتی مسئلہ میں ہوتا ہے جو غیر مسلم ہو، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان باتوں کا علم، جو مخلوق نہیں جانتی، مسلم اور بدیہی ہے۔ بھلا فرشتوں کو اس میں تردد کیسے ہوسکتا ہے؟ اس صورت میں ”ان“ ان سلسلہ وار جملوں کے لیے علامت ہے، جن کو قرآن نے ایک آسان انداز بیان میں نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ یعنی یہ کہ انسان میں کچھ ایسی مصلحتیں اور اس قدر خیر ہے، جس کے ہوتے ہوئے نافرمانیاں (جو شرقلیل ہیں) چھپ جاتی ہیں، لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ نہیں کہ اس ”قلیل شر“ کی وجہ، خیر کثیر کو چھوڑ دیا جائے۔ اور انسان کے اندر ایک ایسا راز ہے، جس نے اس کو خلافت کا اہل بنادیا ۔ فرشتوں کی نگاہ اس سے اوجھل ہے؛ لیکن خالق انسان کو اس کا علم ہے۔ اوراس میں وہ حکمت ہے، جس نے انسان کو، فرشتوں پر ترجیح دی، اس کا علم فرشتوں کو نہیں؛ لیکن خالق انسان کو اس کا علم ہے۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”ان“ کا معنی اس ضمنی حکم سے وابستہ ہو، جو اس کے مدخول کی ایک قید سے سمجھ میں آرہا ہے،یعنی تم کو تحقیقی علم نہیں۔

نیز (أعلم مالا تعلمون) لازم ذکر کرکے ملزوم مراد لینے کے باب سے ہوسکتا ہے یعنی ایسی بات موجود ہے، جو تم نہیں جانتے، اس لیے کہ علم الٰہی ہر چیز کو لازم ہے۔ اور علم کی نفی، معلوم کے عدم وجود کی دلیل ہے، جیساکہ فرمان باری ہے (بما لا یعلم) (یونس:۱۸) یعنی وہ ناممکن اور غیر موجود ہے۔ اور علم کا ہونا، معلوم کے وجود کی دلیل ہے۔ پھر اس اجمالی جواب کی تحقیق کے طور پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اس کے کام، بلا حکمت و مصلحت نہیں ہوتے۔ موجودات، مخلوق کی معلومات میں محصور نہیں؛ لہٰذا لاعلمی، عدم وجود کی دلیل نہیں۔“(۳۶)

”پھر اللہ تعالیٰ نے (انی أعلم مالا تعلمون) میں، علم کے صرف ایک پہلو (یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے جو فرشتے نہیں جانتے) کو ذکر کیا، دوسرے پہلو یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی علم ہے جو فرشتے جانتے ہیں) کا ذکر نہیں فرمایا، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ تمام چیزیں ہیں، جو فرشتوں کے علم میں ہیں اور نہیں۔ اور یہ کامل درجہ کی بدیہی بات ہے۔ اور یہاں پر اس بدیہی کے صرف ایک جزو کو ذکر کیا اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ ہے، جو فرشتوں کے علم میں نہیں اور یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے علم میں وہ ہے جو فرشتوں کے علم میں ہے؛ کیوں کہ مقصد اس پہلو کے تذکرہ سے نہیں؛ بلکہ جو فرشتوں کے علم سے باہرتھا، اس کے علم الٰہی کے اندر ہونے کے تذکرہ سے وابستہ تھا۔ اور اس میں گفتگو کو ختم کرتے ہوئے فرشتوں کے اوپر یہ حجت اجمالی طور پر قائم کرنا ہے کہ علم الٰہی کی وسعت ان تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، جو انکے احاطہٴ علم میں نہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے، جب آدم کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا، تو اللہ کو یہ معلوم تھا کہ وہ خلافت کا اہل ہے اوراس جملہ کی تاکید اس لیے لائی گئی کہ فرشتوں کی طرف سے اظہار رائے اور تخلیق آدم حکمت سے لاعلمی اور غفلت کے لحاظ سے، فرشتوں کو تردد کرنے والوں کے درجہ میں رکھ دیاگیا ہے۔(۳۷)

شاید اس سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ فرمان باری (انی أعلم مالا تعلمون) محض اس لیے نہیں کہ فرشتوں کو ایسی بات بتائی جائے، جس کو وہ بدیہی طور پر جانتے تھے؛ بلکہ اتمام حجت اوراس لیے تھا کہ تخلیق آدم میں حکمت الٰہی فرشتوں کی غفلت کے لحاظ سے ان کو تردد کرنے والے کے درجہ میں اتاردیاگیا ہے۔ (۳۸)

ابوسعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

انی اعلم مالا تعلمون اس میں یہ بیان کرنا مقصود نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہر اس چیز کا علم ہے جو فرشتے نہیں جانتے؛ کیوں کہ فرشتوں کو اس میں کوئی شک و شبہ تھا ہی نہیں کہ انہیں اس پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی، خاص طور پر تاکید کے انداز میں؛ بلکہ یہ بتانا ہے کہ آدم کے اندر ایسے اسباب اور وجوہات ہیں، جو اس کو خلیفہ بنانے کی متقاضی ہیں؛ اس لیے کہ یہی بات فرشتوں کے ذہن سے اوجھل تھی اور اسی پر انھوں نے اپنے تعجب اور استبعاد کی بنیاد رکھی تھی، ما (اس کو موصولہ مانیں یا موصوفہ) انہی اسباب ووجوہات سے عبارت ہے اور مطلب یہ ہے کہ آدم کے اندر خلافت کے جو دواعی اوراسباب ہیں وہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس بات کو علم الٰہی کے احاطہ اور فرشتوں کی غفلت کے تذکرہ کے بغیر یہ کہہ کر بھی بیان کیا جاسکتا تھا کہ آدم کے اندر خلافت کے دواعی اوراسباب موجود ہیں؛ لیکن ایسا نہیں کیاگیا تاکہ اس کی اہمیت اجاگر کی جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم گہرے علم اور پختہ حکمت پر مبنی ہوتاہے اور فرشتوں کی یہ بات، غفلت اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔“(۳۹)

(۱۲) فرمان باری: وعلم آدَمَ الأسماء کلہا ثم عرضہم علی الملائکة فقال أنبئونی بأسماء ہولاء ان کنتم صادقین قالوا لا علم لنا الا ما علمتنا، انک أنت السمیع العلیم (آیت: ۳۱-۳۲)

”اور سکھلادیے اللہ نے آدم کو، نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے، پھر فرمایا: بتاؤ مجھ کو نام ان چیزوں کے، اگر تم سچے ہو؟ بولے: پاک ہے تو، ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تونے ہم کو سکھلایا۔ بے شک توہی ہے اصل جاننے والا، حکمت والا۔“

یہاں پر (لا علم لنا الا ما علمتنا) بدیہیات میں سے ہے؛ اس لیے فرشتوں کو اتنا ہی علم ہوگا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا ہے۔ یہ بالکل بدیہی بات تھی، پھر اس کو ذکر کرنے میں کیا حکمت اورفائدہ ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے میں فرشتوں کا مقصد اپنی حالت بتانا نہیں تھا؛ کیوں کہ ان کو یہ یقین تھا ہی کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات پہلے سے ہے کہ فرشتے وہی جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انکو بتاتا ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنی بے بسی کا اظہار ہے(۴۰) اور یہ کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کو خود نہ بتائے وہ اس سوال کا جواب سمجھنے سے قاصر ہیں، جو ان کے سامنے رکھا گیاہے۔

(۱۳) فرمان باری: وقُلْنا اہبطوا بعضکم لبعض عدو ولکم فی الأرض مستقر ومتاع الی حینo فتلقی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ہو التواب الرحیمo قلنا اہبطوا منہا جمیعا (آیت: ۳۶-۳۸)

”اور ہم نے کہا: تم سب اترو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ایک وقت تک، پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند باتیں، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر، بیشک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب“۔

یہاں پر نیچے اترنے کا حکم دوبار ذکر کیاگیا حالاں کہ ایک بار ذکر کردینے سے دوسرے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ پھر اس کو دوبار ذکر کرنے میں کیا فائدہ ہے؟

مفسرین نے اس کے کئی جواب نقل کیے ہیں:

(الف) دوسرا حکم تاکید کے لیے ہے(۴۱) اور فصل، کمال اتصال کی وجہ سے ہے۔ اور (فتلقی) میں فاء، اعتراضیہ ہے؛ کیوں کہ معطوف کو تاکید سے پہلے لانا جائز نہیں اوراس کافائدہ، توبہ کے مزید اہتمام کی طرف اشارہ کرنا ہے اور یہ کہ اس میں جلدی کرنی چاہیے تاخیر نہیں؛ کیوں کہ یہ دوسرا گناہ ہوجاتا ہے۔ نیز اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی بہتر حالت اور فارغ البالی کا اظہار ہے۔(۴۲)

(ب) اس لیے مکرر بیان فرمایا تاکہ پہلے معنی کے علاوہ ایک دوسرا معنی اس سے متعلق ہو۔ چناں چہ زمین پر اترنے کے لیے پہلاحکم، ایک دوسرے سے دشمنی کے لیے تھا اور یہ حکم تکوینی ہے۔ اور دوسرا حکم اس لیے تھا تاکہ جسے راہ راست پر آنا ہو، راہ راست پر آجائے اور جسے بھٹکنا ہو بھٹک جائے، اور یہ حکم تکلیفی ہے۔ علم بدیع کی اصطلاح میں اسلوب کو ”تردید“ کہاجاتاہے۔ اوراس صورت میں فصل، انقطاع کی وجہ سے ہے؛ اس لیے کہ دونوں مقاصد میں مباینت ہے۔(۴۳)

ابوسعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”زمین پر اترنے کا حکم مکرر یہ بتانے کے لیے لایا گیا کہ اس کا تقاضا حتمی اوراس کا تحقق اور وجود یقینی ہے، نیز اس لیے تاکہ آدم علیہ السلام کے دل میں یہ تمنا نہ پیداہو کہ اس کے متعلق بھی توبہ قبول ہوجائے اور معافی نصیب ہو، نیز اس میں آدم علیہ السلام پرایک طرح سے مہربانی کا اظہار ہے کہ دونوں میں کھلا فرق ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ پہلے حکم میں ایک طرح کی ناراضگی شامل ہے اور اخیر میں یہ بھی بیان کردیاگیاہے کہ جہاں اترکر جانا ہے وہ آزمائش اور ایک دوسرے سے دشمنی کا گھر ہے، وہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہوگا، ایک عارضی قیام گاہ ہے جبکہ دوسرے حکم کے ساتھ، ہدایت عطا ہونے کاو عدہ ہے، جو نجات اورکامیابی کا راستہ ہے۔ اوراس میں جو عذاب کی وعید ہے تو یہ ”تکلیف“ کا اولین مقصد نہیں؛ بلکہ اس کا مدار مکلفین کے غلط اختیار کرنے پر ہے۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت سے روکنے کے لیے ایک ہوشیارآدمی کے واسطے، ان دونوں میں کسی ایک پر مشتمل ”اہباط“ (زمین پراتارنے) کا اندیشہ ہی کافی ہے، چہ جائیکہ وہ جو دونوں پر مشتمل ہو؟“(۴۴)

اسی طرح امام رازی نے دونوں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھاہے:

”میرے نزدیک ایک تیسری توجیہ ہے، جو ان دونوں سے قوی ہے۔ وہ یہ کہ جب آدم اورحواء سے لغزش صادر ہوئی تو انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیاگیا۔ اس حکم کے بعد انھوں نے توبہ کی پھر دل میں سوچا کہ زمین پراترنے کا حکم اس لغزش کی وجہ سے تھا، تو توبہ کے بعد زمین پر اترنے کاحکم باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے زمین پر اترنے کاحکم مکرر دیا تاکہ انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حکم، لغزش کے ارتکاب کی جزاء کے طور پر نہیں تھا کہ لغزش کے مٹ جانے سے زمین پر اترنے کا حکم بھی ختم ہوجائے؛ بلکہ یہ حکم توبہ کے بعد بھی باقی ہے؛ اس لیے کہ اس کا حکم اس وعدہ کی تکمیل کے لیے تھا،جو فرمان باری (انی جاعل فی الارض خلیفہ) میں آچکا ہے۔(۴۶)

بہر کیف اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ قول اختیار کیاہے، ان کے نزدیک دوسرا حکم یہی بیان کرنے کے لیے ہے کہ توبہ کی قبولیت کے باوجود، زمین پراتارنا ضروری ہے؛ لہٰذا پہلا حکم زمین پر اترنے کے لیے تھا اور دوسرا حکم یہ بیان کرنے کے لیے کہ توبہ کی قبولیت سے جو معافی ملی ہے اس میں زمین پر اترنا داخل نہیں۔ واللہ اعلم(۴۷)

(د) آلوسی نے ایک اور قول (جس کو وہ خود مستبعد قرار دے رہے ہیں) ذکر کیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

”ایک احتمال (جو بعید ہے) یہ ہے کہ مکرر لانے کا فائدہ اس بات پر تنبیہ مقصود ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس کاارادہ فرمایا تھا اوراگر ارادہ الٰہی نہ ہوتا، تو یہ پیش ہی نہ آتا؛ اسی لیے آدم اورحواء کو جنت سے نکالنے کی نسبت پہلے شیطان کی طرف کی پھر زمین پر اتارنے کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی اوراس کو کسی سبب سے متعلق نہیں فرمایا۔ لہٰذا یہ اس فرمان باری کے قریب ہے (وَمَا رَمَیْتَ اذ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی) (سورہ انفال: ۱۷)

”اور تونے نہیں پھینکی مٹی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی؛ لیکن اللہ نے پھینکی“(۴۸)

(ھ) ابن عاشور کہتے ہیں:

قلنا اہبطوا کا جملہ مکرر لایاگیا ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ آیت میں نظم قائم کرنے کے لیے کیا گیاہو اور حضرت آدم سے خطاب میں، جو کلام آیا ہے،اس کے معنی میں تکرار پر دلالت نہ کرے۔ لہٰذا یہ تکرار (وقلنا اہبطو) کے مدلول کے متعلقات یعنی (بعضکم لبعض عدو) اور (فاما یاتینکم منی ہدی) سے محض اتصال کے لیے ہے؛ اس لیے کہ ان دونوں متعلقات کے درمیان جملہ معترضہ (فتلقی آدم من ربہ کلمات) کے ذریعہ فصل کردیاگیا ہے؛ کیونکہ اگراس کے معاً بعد یہ کہہ دیا جاتا (فاما یاتینکم منی ہدی) تو پورے طورپر ربط قائم نہیں رہتا اورسامع کو یہ وہم ہوتا کہ یہ مسلمانوں کو خطاب ہے، جیسا کہ تفنن کلام کے طورپر قرآن کریم کی یہ عادت ہے؛ اسی لیے (قلنا اہبطوا) والے جملہ کو دوبارہ لایاگیا۔ لہٰذا یہ ایک ہی بات ہے۔ کلام کو مربوط رکھنے کے لیے اس کو مکرر لایاگیا؛ اسی لیے اس میں عطف کااستعمال نہیں ہوا۔ ہماری رائے ہے کہ اس کی وجہ، ان دونوں کے درمیان ”شبہ کمال اتصال“ کا ہونا ہے؛ کیوں کہ جملہ (قلنا اہبطوا منہا جمیعا)، پہلے جملہ (قلنا اہبطوا بعضکم لبعض عدو) کے لحاظ سے تاکید لفظی کے درجہ میں آیا ہے پھر اس پر فرمان باری (فاما یاتینکم منی ہدی) الآیہ کی بنیاد رکھی گئی اور یہ اس جملہ سے الگ ہے، جس پر (قلنا اہبطوا بعضکم لبعض عدو) کی بنیاد رکھی گئی تاکہ کلام میں کچھ نہ کچھ نیا فائدہ آجائے اور (اہبطوا) کااعادہ محض تاکید نہ رہ جائے۔ اس اسلوب کو علم بدیع کی اصطلاح میں ”تردید“ کہتے ہیں جیسے فرمان باری ہے (لا تحسبن الذین یفرحون بما أتوا ویحبون أن یحمدوا بمالم یفعلوا فلا تحسبنہم بمفازة من العذاب) (سورہ آل عمران:۱۸۸)

”تو نہ سمجھ کہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کیے پر اور تعریف چاہتے ہیں بن کیے سو مت سمجھ ان کو کہ چھوٹ گئے عذاب سے۔“

اس سے تاکید کا فائدہ تو محض لفظ کے اعادہ سے حاصل تھا۔(۴۹)

یہ قول پہلے دو اقوال کے خلاف ہے؛ اس لیے کہ پہلے قول میں فصل کی وجہ کمال اتصال بتائی گئی اور دوسرے قول میں اس کی وجہ انقطاع قرار دی گئی؛ لیکن اس تیسرے قول میں اس کی وجہ ”شبہ کمال اتصال“ قرار دی جارہی ہے۔ اس فرق کی وضاحت خود ابن عاشور نے اپنے سابقہ قول کے حاشیے میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں:

”میں یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ”الکشاف“ میں جو یہ لکھاہے کہ دوسرا (اہبطوا) تاکید ہے تو اس سے مراد قریب قریب تاکید ہے اور اس کی شکل یہ ہے کہ محض لفظ کے اعادہ سے ذہن میں اس کے مدلول و معنی کی توثیق و تقریر ہوجائے گوکہ اس کے ذکر سے تاکید مقصود نہ ہو۔ بناء بریں فصل، کمال اتصال کے سبب نہیں جیساکہ شیخ عبدالحکیم کو بیضاوی کے اس قول سے وہم ہوگیا کہ تاکید کے لیے مکرر لایاگیا۔“(۵۰)

(و) ایک قول اور ہے، جس کو کئی مفسرین نے نقل کرنے کے بعد رد کیا ہے۔ اس کے قائل جبائی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ دونوں اترنا الگ الگ ہیں: پہلے سے مراد جنت سے، آسمان دنیا پر اترنا اور دوسرے سے مراد آسمان دنیاسے زمین پر اترنا ہے؛ لیکن یہ قول دو وجہ سے ضعیف ہے:

اول: پہلے اترنے کے متعلق فرمایا (ولکم فی الارض مستقر) اس سے معلوم ہوا کہ یہ اترنا زمین پر ہے، نہ کہ آسمان پر۔ اوراگر زمین میں استقرار، دوسرے اترنے سے حاصل تھا تو اسے اس کے بعد ذکر کرنا چاہیے تھا نہ کہ اس سے پہلے۔

دوم: دوسرے اترنے کے بارے میں فرمایا (اہبطوا منہا) اس میں (منہا) کی ضمیر، جنت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا اترنا جنت سے تھا نہ کہ آسمان دنیا سے۔

نقاش نے نقل کیا ہے کہ دوسرا اترنا جنت سے آسمان پر ہی ہے۔ آیت کی ترتیب میں، پہلے زمین پراترنے کا ہی کا ذکر ہے؛ لیکن وقوع کے لحاظ سے یہ آخر میں ہے۔ لہٰذا یہاں پر تکرار کا مسئلہ ہی نہیں۔(۵۱)

(۱۴) فرمان باری: یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم (آیت:۴۰)

”اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے وہ احسان، جو میں نے تم پر کیے ہیں“

یہاں پر (التی انعمت علیکم) کامفہوم (نعمتی) سے بدیہی طور پر معلوم ہورہا تھا کہ اگر یوں کہہ دیتے ”اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے احسان جو تم پر ہیں“ تو بھی کلام درست تھا، لہٰذا (التی انعمت علیکم) کہنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے تعلق سے دوسرسری اشارے کتب تفسیر میں ملتے ہیں:

(۱) ابوحیان اپنی تفسیر ”البحر المحیط“ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

”(التی انعمت علیکم) کی صفت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس احسان کا علم ان کو پہلے سے تھا اور اس میں اس احسان کی عظمت کا بیان ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت (نعمتی) اور (انعمت) اپنی ذات کی طرف کی ہے۔“(۵۲)

(۲) ابن عاشور لکھتے ہیں:

”(انعمت علیہم) کی صفت میں اشارہ ہے کہ نعمت کا شکریہ ضروری ہے؛ کیوں کہ موصول اور صلہ، علت کی غمازی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ اس فرمان باری کے قبیل سے ہے (ولیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون) (سورہ مائدہ:۶)

”اور پورا کرے اپنا احسان تم پر تاکہ تم احسان مانو“(۵۳)

(۱۵) فرمان باری:

ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون (آیت:۴۲)

”اور مت ملاؤ صحیح میں غلط، اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر“

یہاں بدیہی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے صحیح غلط کو ملایا، انھوں نے صحیح کو چھپایا۔اور جب یہ بات معلوم ہوچکی تھی، تو اس کو دوبارہ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

مفسرین نے اس کے کئی جواب دئیے ہیں:

(۱) زمخشری لکھتے ہیں:

”اگر آپ کہیں کہ صحیح میں غلط کو ملانا اور صحیح کو چھپانا؛ یہ دونوں الگ الگ افعال نہیں کہ ایک ساتھ دونوں کی ممانعت آئے؛ کیوں کہ جب انھوں نے صحیح میں غلط کو ملایا تو صحیح کو چھپایا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں الگ الگ ہیں؛ اس لیے کہ صحیح میں غلط کو ملانا تو یہ ہے کہ تورات میں ایسی بات درج کردیں جو اس میں نہیں، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اور صحیح کو چھپانا یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ ہم کو تورات میں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف نہیں ملتے یا یہ اس چیز کاحکم نہیں ملتا یا یہ کہ اس کو مٹادیں یا یہ کہ اس کو خلاف واقعہ لکھ دیں۔“(۵۴)

(۲) ابو یحییٰ زکریا انصاری لکھتے ہیں:

”اگر آپ کہیں کہ ان دونوں میں کوئی مغایرت نہیں، تو ایک کا دوسرے پر عطف کیسے ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں میں لفظی اعتبار سے مغایرت ہے جیساکہ اس فرمان باری میں (اولئک علیہم صلوات من ربہم ورحمة) (سورہ بقرہ:۱۵۷) یا لفظی اور معنوی اعتبار سے مغایرت ہے۔“(۵۵)

آگے انھوں نے اوپر والا مضمون ذکر کیا ہے۔

(ج) عبداللہ بن مسعود کی قراء ت میں ”وتکتمون الحق“ ہے۔ اس کی تخریج یہ کہ یہ جملہ حال کی جگہ میں ہے۔

زمخشری نے اس کی تقدیر ”کاتمین“ قرار دی ہے۔(۵۶)

لیکن ابوحیان اس سے مطمئن نہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ معنی کے لحاظ سے تقدیرہوسکتی ہے، اعراب کے لحاظ سے نہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مثبت جملہ جس کے آغاز میں فعل مضارع ہو، اگرحال واقع ہو تواس پر واو داخل نہیں ہوتا۔(۵۷)

لیکن آَوسی اس ضابطے کو تسلیم نہیں کرتے، وہ لکھتے ہیں:

”فعل مضارع سے آغاز ہونے والے حال کے ساتھ واو کے جواز کے بارے میں دو اقوال ہیں۔ جو لوگ ناجائز کہتے ہیں ان کے پاس کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں۔“(۵۸)

پھر ابوحیان کے نزدیک راجح یہ ہے کہ اس کی اعرابی تقدیر یہ ہو کہ فعل مضارع سے پہلے مبتدا، پوشیدہ مانا جائے، جس کی تقدیر ”وانتم تکتمون“ ہے۔

اس قراء ت کی تخریج، حال کی صورت میں ابن حیان کے نزدیک مقبول نہیں، وہ اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اس قراء ت کی تخریج حال کی صورت میں، غیر واضح ہے؛ کیوں کہ حال جملہ سابقہ کی قید ہوتا ہے اور ان لوگوں کو صحیح میں غلط ملانے سے بہرحال روکا گیا تھا؛ لہٰذا یہ قید حال کے لیے صرف اس صورت میں مناسب ہوگی، جبکہ حال، لازمہ ہو یعنی یہ کہا جائے کہ صحیح میں غلط کی آمیزش جب بھی ہوگی تو صحیح چھپ جائے گا۔“(۵۹)

جو لوگ اس حال کو لازمہ مانتے ہیں، آلوسی نے اس کو ”بعض محققین“ قرار دیا ہے۔ اورآگے اس قید کا فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

”یہ قید، علت بیان کرنے کے لیے ہے۔ جیسے لاتضرب زیدا وہو أخوک (زید کو نہ مارو، جب کہ وہ تمہارا بھائی ہے) بناء بریں حق چھپانے سے مراد وہ چھپانا ہے جو صحیح میں غلط ملانے سے ہوتا ہے نہ کہ ایسے شخص سے حق چھپانا، جو اس کو نہ سنے“(۶۰)

(د) ابوسعود کی رائے ہے کہ ”وتکتموا الحق“ مجزوم اور نہی کے حکم میں داخل ہے گویا کہ ان کو حکم تھا کہ ایمان لائیں، اور گمراہی چھوڑیں اور ان کے لیے یہ ممانعت تھی کہ جو لوگ حق سننے آئیں حق و باطل کو آمیزکرکے ان کو گمراہ کریں اور جو لوگ نہیں سنتے ان سے حق چھپائیں۔(۶۱)

(ھ) ابوسعود نے آگے ایک اور رائے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

”یا یہ منصوب ہے، اس میں (اَن) کو پوشیدہ مانا جائے اور (واو) جمع کے لیے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ صحیح میں غلط ملانے اور صحیح کو چھپانے؛ یہ دونوں ایک ساتھ نہ کرو۔ اس کی تاکید اس سے ہوتی ہے کہ عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں یوں ہے: وتکتمون الحق یعنی وأنتم تکتمون الحق یعنی اس حال میں کہ تم اس کو چھپانے والے ہو۔ اس میں یہ بتانا ہے کہ صحیح میں غلط ملانا قبیح اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ صحیح کو چھپانا ہوتا ہے۔“(۶۲)

(۱۶) فرمان باری: وأقیموا الصلوٰة وآتوا الزکوٰة وارکعوا مع الراکعین (آیت:۴۳)

”اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکاة اور جھکو جھکنے والوں کے ساتھ“

یہ بالکل بدیہی اور کھلی ہوئی بات ہے کہ نماز کا حکم دینا، رکوع کا حکم دینا ہے، پھر جو بات پہلے سے معلوم تھی،اس کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟

مفسرین نے اس کے کئی فائدے نقل کیے ہیں:

(الف) اس آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب ہے۔ جب ان کو نماز کا حکم دیا، تو التباس ختم کرنے کے لیے بتادیا کہ نماز سے مراد، مسلمانوں کی نماز ہے جس میں رکوع ہوتا ہے، ان کی اپنی نماز نہیں،جس میں رکوع نہیں ہوتا۔ یہ قول رازی، زمخشری، بغوی، نیساپوری، ابن عطیہ، اور ابن عاشور وغیرہ نے نقل کیا ہے۔(۶۳)

ڈاکٹر فہد رومی کہتے ہیں کہ بہ ظاہر (واللہ اعلم) یہ قول غلط ہے؛ اس لیے کہ رکوع ان کے مذہب میں رہاہے، حضرت ابراہیم کو خطاب کرتے ہوئے فرمان باری ہے: وعہدنا الی ابراہیم و اسماعیل أن طہرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود (سورہ بقرہ:۱۲۵)

”اور حکم کیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہ پاک رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنے والوں کے اور اعتکاف کرنے والوں کے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے۔“

نیز فرمایا: طہر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود (سورہ حج:۲۶)

”اور پاک رکھ میرا گھر طواف کرنے والوں کے واسطے اورکھڑے رہنے والوں کے اور رکوع وسجدہ والوں کے۔“

حضرت مریم علیہا السلام کو حکم ہوا: یٰمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (سورہ آل عمران:۴۳)

”اے مریم بندگی کراپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے۔“

داؤد علیہ السلام کے متعلق خبر دی: (وظن داوٴد أنما فتناہ فاستغفر ربہ وخر راکعا وأناب) (سورہ ص:۲۴)

”اور خیال میں آیا داؤد کے کہ ہم نے اس کو جانچا پھر گناہ بخشوانے لگا اپنے رب سے اور گرپڑا جھک کر اور رجوع ہوا۔“

ایک یہودی مصری عالم ڈاکٹر ہلال یعقوب فارحی اپنے یہاں نماز کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ بیٹھ کر، کھڑے ہوکر اور رکوع و سجدہ میں نماز ادا کرتے تھے اور بوق بجاتے تھے اور تاہنوز یہی چلا آرہا ہے۔(۶۴)

(ب) (اقیموا الصلاة) یہ نماز قائم کرنے کا حکم ہے اور (وارکعوا مع الراکعین) میں، نماز باجماعت قائم کرنے کا حکم ہے یہ رازی کا قول ہے۔ اس لحاظ سے تکرار نہیں رہتا؛ اس لیے کہ پہلے میں اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور دوسرے میں باجماعت اداکرنے کا حکم ہے۔ یہی رائے زمخشری، بغوی، نیساپوری اور ابن عطیہ کی بھی ہے۔(۶۵)

(ج) نماز کا حکم اور رکوع کا حکم دونوں الگ الگ ہیں: رکوع کے حکم سے مراد، خضوع اور عاجزی ہے، نماز کا حکم نہیں؛ اس لیے کہ رکوع اور خضوع لغوی لحاظ سے ایک ہیں۔ لہٰذا اس میں تکبر (جو ایک مذموم خصلت ہے) سے ممانعت اور تواضع کا حکم ہے، جیساکہ مسلمانوں سے فرمایا: (فسوف یأتی اللّٰہ بقوم یحبہم ویحبونہ أذلة علی الموٴمنین أعزة علی الکافرین) (سورہ مائدہ:۵۴)

”تو اللہ عنقریب لائے گا ایسی قوم کو کہ اللہ ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں۔ نرم دل ہیں مسلمانوں پر، زبر دست ہیں کافروں پر۔“

اور جیسے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: (واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین) (سورہ شعراء:۲۱۵)

”اور اپنے بازو نیچے رکھ ان کے واسطے جو تیرے ساتھ ہیں ایمان والے۔“

نیز جیسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں فرمایا: (فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک) (سورہ آل عمران: ۱۵۹)

”سو کچھ اللہ ہی کی رحمت ہے جو تو نرم دل مل گیا ان کو اور اگر تو ہوتا تندخو، سخت دل تو متنفر ہوجاتے تیرے پاس سے۔“

اسی طرح فرمان باری ہے: (انما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والذین آمنوا یقیمون الصلوٰة ویوتون الزکوٰة وہم راکعون) (سورہ مائدہ: ۵۵۳)

”تمہارا رفیق تو وہی اللہ ہے اوراس کا رسول اورجو ایمان والے ہیں جو کہ قائم ہیں نماز پر اور دیتے ہیں زکاة اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں۔“

تو گویا جب اللہ تعالیٰ ان کو نماز اور زکاة کا حکم دیا تو اس کے بعد ماتحتی اور خضوع اختیار کرنے اور سرکشی چھوڑنے کا حکم دیا۔اس کو زمخشری اورنیساپوری نے بھی نقل کیاہے۔(۶۶)

لیکن آلوسی نے رکوع کی تفسیر، خشوع سے غیر مقبول قرار دی ہے؛ اس لیے کہ تفسیر کے قاعدہ کے مطابق لغوی معنی پر شرعی معنی مقدم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”زکاة کا حکم دینے کے بعد، اس (رکوع) کا حکم دینے کی وجہ شاید یہ ہے کہ زکاة میں ترفع کا گمان ہے؛ اس لیے خضوع کا حکم دیا تاکہ اس سے گریز کریں؛ لیکن شرعی استعمال میں اصل یہ ہے کہ شرعی معانی مراد لیے جائیں۔“(۶۷)

(۱۷) فرمان باری: الذین یظنون أنہم ملاقوا ربہم وأنہم الیہ راجعون (آیت:۴۶)

”جن کو خیال ہے کہ وہ روبہ رو ہونے والے ہیں اپنے رب کے اور یہ کہ ان کو اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ایک بدیہی امر ہے جو (ملاقوا ربہم) سے معلوم ہوچکا تھا، پھر اس کو ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟

یہ سوال بالکل واضح ہونے کے باوجود عام مفسرین نے نہ اس کو اٹھایا اور نہ ہی اس کا جواب دیا، البتہ زکریا انصاری نے اس سوال کو اٹھایا اور اس کا جواب دیا۔ وہ لکھتے ہیں:

”سوال یہ ہے کہ دوسرے ٹکڑے کو ذکر کرنے میں کیا فائدہ ہے جب کہ پہلا ٹکڑا کافی تھا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ پہلا کافی نہیں تھا؛ اس لیے کہ پہلے سے مراد یہ ہے کہ وہ صبر اور نماز کے اوپر اپنے رب کے ثواب سے ملنے والے ہیں، جبکہ دوسرے مراد یہ ہے کہ ان کو بعث (دوبارہ زندہ کیے جانے اور مذکورہ بالا امر پر ثواب ملنے کا یقین ہے۔“(۶۸)

اسی طرح امام محمد بن ابوبکر رازی نے بھی اس سوال کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:

”سوال یہ ہے کہ فرمان باری (الذین یظنون أنہم ملاقوا ربہم وأنہم الیہ راجعون) میں دوسرے ٹکڑے کا فائدہ کیا ہے، جبکہ پہلا ٹکڑا اس پر دلالت کرتا اوراس کا متقاضی تھا؟ اس کا جواب یہ کہ (ملاقوا ربہم) کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے ثواب اوراس نے صبر اور نماز پر جو وعدہ فرمایاہے، اس سے ملنے والے ہیں۔ اور (أنہم الیہ راجعون) کا مطلب یہ کہ ان کو بعث کا یقین ہے۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ ان کو بعث کا اور ثواب موعود کا یقین ہے۔ لہٰذا اس میں تکرار نہیں۔“(۶۹)

ابن عاشور نے ”ملاقات“ اور ”رجوع“ کو ان کے حقیقی معنی سے ہٹاکر مجازی معنی پر محمول کیا۔ وہ رقم طراز ہیں:

”یہاں ملاقات اور رجوع کے مجازی معنی حساب اور حشر یا دیدار الٰہی اور ثواب مراد ہیں؛ اس لیے کہ ملاقات کا حقیقی معنی (جوکہ دو جسموں کا ایک دوسرے سے قریب ہوناہے) اور رجوع کا حقیقی معنی (جو کہ کسی چیز کا ایسی جگہ جاپہنچنا جہاں سے یہ پہنچنے والی چیز نکلی ہے) یہاں پر محال ہے۔“(۷۰)

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء